میں نے جب لکھنا سیکھا تھا…
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا…
پہلے تیرا نام لکھا تھا…
میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو…
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا…
بار امانت سر پر لیا تھا…
تو نے کیوں میرا ہاتھ نہ پکڑا…
جب میں رستے سے بھٹکا تھا…
پہلی بارش بھیجنے والے…
میں تیرے درشن کا پیاسا تھا…
(ناصر کاظمی)
الله نے پکارا… ہے کوئی جو میری ایک امانت کا بوجھ اٹھاے… یہ سن کر سمندر کی سانسیں ٹوٹنے لگیں… پہاڑ ہیبت سے لرزنے لگے… پوری کائنات پر لرزہ طاری ہو گیا… کسسی کو طاقت نہ تھے کہ وہ یہ بوجھ اٹھاتا… پھر الله نے وہ امانت انسان کو سونپ دی… اور انسان اسے اٹھاے مضطرب اور سرگرداں ہے… یہ کائنات کا سب سے بڑا صبر ہے…
وہ امانت الله کی تمام صفات کا پر تو ہے… ہلکا سا عکس…
الله نے اپنی تمام صفات انسان کو سونپ دی… رحم، کرم، قہر، جبر، پوری ٩٩ صفات… اور اپنا اسم ذات نور سے لکھ کر پہلے ہی اس کی پیشانی میں رکھ دیا… الله نے جب جن و ملائک کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ شرک کا حکم نعوذ باللہ نہیں دیا تھا… وہ سجدہ آدم کے لئے نہیں تھا بلکے وہ تو پیشانی میں محفوظ اسم ذات کے لئے تھا… الله کے لئے تھا… اس لئے شاعر نے کہا کے میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو جن و ملک نے سجدہ کیا تھا… پھر اپنی ٩٩ صفات کا عکس انسان پر ڈالا تو اس نے یہ بتا دیا کہ انسان اس کا خلیفہ، اس کا نائب ہے… اس میں اتنا صبرہے کہ وہ یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے… تو انسان میں رحیمی بھی ہے… جباری بھی ہے…اور قہاری بھی ہے… اب انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ان صفات کے درمیان توازن قائم رکھنا ہے… رحمتوں کا اور صفات کا یہ توازن صرف ایک انسان نے قائم کر کے دکھایا ہے… اور وہ ہیں… رحمت العالمین صل الله ہو علیہ وسلم…
یوں انسانیت سرخرو ہوئ اور امانت کا حق ادا ہوا…
علیم حقی کی کتاب “عشق کا عین” سے اقتباس
1عائشہ
تبصرہ بتاریخ 24 جولائی 2011 بوقت 17:32
السلام علیکم بھیا
بہت اچھی نظم شیئر کی آپ نے
بھیا ان دو شعروں کو پھر سے دیکھئے گا میرے خیال میں یہ کچھ یوں ہیں شاید
میں وہ صبرِ صمیم ہوں جس نے
بارِ امانت سر پہ لیا تھا..
تونے کیوں میرا ہاتھ نہ پکڑا
جب میں راستے سے بھٹکا تھا..
2عمران اقبال
تبصرہ بتاریخ 25 جولائی 2011 بوقت 0:03
عائشہ بہن۔۔۔ پہلے تو میرے بلاگ پر آمد پر بہت بہت خوش آمدید۔۔۔ امید ہے کہ آپ اسی طرح اپنے مصروفیت میں سے میرے بلاگ کے لیے کچھ وقت نکالتی رہیں گی۔۔۔
آپ نے جن غلطیوں کی نشاندہی کی ہے وہ میں نے ٹھیک کر دی ہیں۔۔۔ تصحیح کے لیے بہت شکریہ
3جوانی پِٹّا
تبصرہ بتاریخ 28 جولائی 2013 بوقت 10:24
سر جی۔
یہ عشق کا عین کس وجہ سے اتنی مشہور ہے۔ ؟
شین اور قاف کا کیا قصور ھے کہ وہ بیچارے گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ھیں۔ 🙂